
کہنے کی بات
اُردو صحافت نے آزادی سے قبل جس حق گوئی ‘ بے باکی ‘ اور جرات کا مظاہرہ کیا اسکی کوئی نظیر دوسری زبان میں نہیں ملتی اور تمام تر رکاوٹوں و دشوارویوں کے باوجود آج بھی اُردواخبارات حق و انصاف اور سچائی کا پرچم بلند کررہے ہیں مگر اُردو صحافت کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید ٹکنالوجی ‘ انٹرنیٹ‘ شوشیل میڈیا سے فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔
ذرائع ابلاغ خواہ وہ اخبار ہو یا ٹیلی ویژن ہو کہ انٹر نیٹ‘ اسکی اہمیت اور اسکی اثر انگیزی ہر دور میں مسلم رہی ہے نئے زمانے کے بدلتے رحجانات کے ساتھ اُرد و صحافت کو عام فہم بناتے ہوئے انٹر نیٹ سے جوڑنے کی ضرورت ہے جو آج بھی اسکی وسعت پہنائیوں سے محروم ہے۔
انٹرنیٹ کے ذریعہ اُردو کا تحفظ کرتے ہوئے جدید ٹکنالوجی کے استعمال سے اُردو کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں آنیوالے انقلابات نے دنیا کو چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کردیا ہے جس کے زیر اثر ذرائع ابلاغ کا دائرہ وسیع سے وسیع ترہوگیا ہے ۔
ای میل‘ ٹویٹر ‘ فیس بک‘ گوگل پلس‘ واٹس ایپ‘ ای یم او‘ یوٹیوب‘ جیسے‘ انسٹاگرام‘ ٹوئٹر‘ آن لائن سوشیل نیٹ ورکس نے مواصلات کی دنیامیں برق رفتاری لائی اس سے دور جدید کی صحافت نے ایک نیا رُخ اختیار کر لیا۔ عوام کا خبروں کے حصول کیلئے صحافت پر بڑے پیمانے پر اعتماد اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔
جو اب عوامی مواصلات کا اہم ذریعہ بن چکے ہیں ۔ انٹر نیٹ کے استعمال نے صحافت کو زمانے کی بلندیوں تک پہنچادیا ہے جس کے زیر اثر اُردو کے چند ایک اخبارات ‘ انٹر نیٹ پر موجود ہیں ۔ سماجی ذرائع ابلاغ خیالات کی ترسیل کا ذریعہ بن چکے ہیں ۔
اُردو صحافت کو زندہ رکھنے کیلئے باصلاحیت افراد کو تلاش کرتے ہوئے اس شعبہ سے جوڑنے کی ضرورت ہے صحافت اور میڈیا میں مسلمانوں کو زیادہ تعداد میں آگے آنا چاہیے اور اصلاحی انداز میں خبروں کو پھیلانے کی ضرورت ہے صحافت اور میڈیا کی بڑی ذمہ داری ہے
جو حضرات صحافت اور میڈیا سے وابستہ ہیں انکی تربیت کی جائے اور جو حضرات صحافت کے میدان کا تجربہ رکھتے ہیں وہ نوجوانوں کواُردو کمپیوٹر کورسس‘ آن لائن کورسیز ‘ میڈیا کورسس‘ میں تربیت فراہم کرتے ہوئے اس شعبۂ سے جوڑنا چاہیے
فی زمانہ اُردوصحافت کو جدید ٹکنالوجی ‘ کمپیوٹر سے واقفیت رکھنے والے باصلاحیت افراد کی سخت ضرورت ہے ‘ اُردو کمپیوٹر کے ماہرین کیلئے اُردو صحافت‘ الکٹرانک میڈیا میں روزگا ر کے مواقع دستیاب ہیں ‘ نئی نسل کو اُردو صحافت کی جانب راغب کرنے کی ضرورت ہے۔
الحمد اللہ اسی کاز کے ساتھ ’ ’زین نیوز ‘‘ اُردو پورٹل کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس کے ذریعہ عوامی مسائل کی بے باکی سے ترجمانی کی جائے گی حقائق پر مبنی خبروں کو پیش کیا جائیگا۔ دیانتداری‘ امانتداری‘ پردہ پوشی‘ سترپوشی کے جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے خبروں کو سامنے لایا جائے گا اور ملت کے مسائل کو اٹھایا جائے گا۔
الحمد اللہ میں محمد عمران زین1993 سے دکن کے قدیم روزنامہ رہنمائے دکن‘ حیدرآبادسے بحیثیت اسٹاف رپورٹر وابستہ رہا ہوں۔اپنی ذمہ داری کے تئیں میں ہمیشہ ثابت قدم ہی رہا چاہے
یہ رپورٹنگ یا پھرکارٹونس کی تیاری ہی کیوں نہ ہو ‘ ناظرین ؍ قارئین کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ پیشہ کے ساتھ انصاف پر یقین رکھنے والے مخلص‘ اس پر آنچ آنے نہیں دیتے ویسے پیشہ وار صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کو خوب جانتے ہیں۔
میں ایک پیشہ ور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی سند بھی رکھتا ہوں۔احقر گرایجویٹ اور صحافت کا ڈپلومہ ہے ۔ اس لئے صحافت کے حد وآداب کا بہ خوبی علم بھی رکھتا ہوں۔
میں زین نیوز کے ذریعہ مظلوم حقوق سے محروم‘ غریب ‘ بے سہارا عوام کی آواز کو ایوان اقتدار تک پہنچانے کا و سیلہ بنو نگا۔ہر خبر سے آپ کو با خبر رکھنے کی کوشش کروں گا۔
