Darul Salam Jalsa

وقف ترمیمی ایکٹ مسلمانوں کی شناخت پر حملہ ہے: اسد اویسی 

تازہ خبر تلنگانہ
وقف ترمیمی ایکٹ مسلمانوں کی شناخت پر حملہ ہے: اسد اویسی 
کالا قانون واپس ہونے تک احتجاج جاری رہے گا؛ ملک گیر تحریک کا اعلا ن 
 مسلم برادری سے متحد ہو کر قانون کے خلاف جدوجہد کرنے اپیل
حیدرآباد، 20 اپریل
 (زین نیوز)
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو مسلمانوں کی مذہبی شناخت پر حملہ قرار دیتے ہوئے مرکز کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام وقف بچاو دستور بچاو مہم کے سلسلہ میں کل ہند مجلس اتحاد مسلمین کے صدر دفتر دار السلام میں منعقدہ تاریخی  دارالسلام، حیدرآباد میں 19 اپریل کو ے ایک احتجاجی جلسہ عام  سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ قانون بھی کسانوں کے خلاف لائے گئے زرعی قوانین کی طرح ایک ’کالا قانون‘ ہے، جسے واپس لینے تک احتجاج جاری رہے گا۔
اسدالدین اویسی نے کہا کہ "جس طرح کسانوں نے پرامن احتجاج کے ذریعے تین متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لینے پر حکومت کو مجبور کیا، اسی طرح ہم بھی وقف ترمیمی قانون کے خلاف لڑیں گے۔ انہوں نے مرکز پر الزام عائد کیا کہ وہ تین طلاق، سی اے اے اور یکساں سول کوڈ جیسے قوانین کے ذریعہ مسلسل مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو نشانہ بنا رہا ہے۔
انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، "مودی صاحب، آپ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے قدموں کی دھول کے بھی لائق نہیں۔” اویسی نے مزید کہا کہ ہندوستان کی خوبصورتی مودی نہیں، بلکہ اس کا بھائی چارہ، مندر، مسجدیں اور درگاہیں ہیں، جنہیں کمزور کرنا دراصل ملک کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
اسدالدین اویسی نے وقف ایکٹ کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں اتر پردیش میں 500 سے زائد وقف املاک کو سرکاری جائیداد قرار دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایکٹ کی دفعہ 2 کے تحت مکیش امبانی جیسے صنعتکاروں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے، جبکہ داؤدی بوہرہ برادری کے اعتراضات کو نظر انداز کر دیا گیا۔
جلسے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ قانونی لڑائی جاری ہے، اور امید ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون کو کالعدم قرار دے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت اگر کوئی شخص 12 سال سے وقف جائیداد پر قابض ہے تو وہ اس کا قانونی مالک بن سکتا ہے، جبکہ وقف عطیہ دینے والے کو کم از کم 5 سال سے مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ نے کہا کہ ماضی میں ہندوؤں نے بھی وقف کے لیے زمینیں عطیہ کیں، لیکن اس نئے قانون سے ایسا ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ سوشل میڈیا اور علمی بحث کے ذریعے اس قانون کے خلاف آواز بلند کریں اور غلط فہمیوں کا ازالہ کریں۔
اس موقع پر مقررین نے مسلم برادری سے اپیل کی کہ وہ متحد ہو کر اس قانون کے خلاف جدوجہد کریں اور شیعہ و سنی فرقوں میں فرق نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے مذہبی اداروں کو جو تحفظ حاصل ہے، وہی تحفظ وقف املاک کو بھی ملنا چاہیے۔
اویسی اور مولانا رحمانی دونوں نے زور دیا کہ یہ تحریک پرامن ہوگی اور اس میں غیر مسلموں کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ حکومت پر دباؤ ڈال کر اس متنازعہ قانون کو واپس لینے پر مجبور کیا جائے۔
اس احتجاجی جلسے میں ملک بھر سے علمائے کرام، سیاسی نمائندے اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جس سے یہ جلسہ ایک تاریخی اجتماع بن گیا۔ جلسہ گاہ اس قدر کھچا کھچ بھری ہوئی تھی کہ اگر ریت کا ایک ذرّہ بھی گرایا جاتا تو وہ زمین تک نہ پہنچ پاتا۔
Darul Salam Jalsa 1
 جلسہ عام سے جناب محمد عبد اللہ رکن پارلیمنٹ ٹاملناڈ و جناب محمد محمود علی سابق وزیر داخله تلنگانه جناب عبد الحفیظ خان سابق رکن اسمبلی آندھرا پردیش، مولانا مفتی ضیا الدین نقشبندی، ڈاکٹر خالد مبشر الظفر ، مولانا حسام الدین ثانی جعفر پاشاہ مولانا سید حسن ابراهیم حسینی قادری سجاد پاشاہ جناب فی الدین نیز مولا تاشفیق عالم خان جامعی مولانا سعد حسین مجتهدی ڈاکٹرسید تا حسین حیدر قامت محمد زبیر امی مولاناعبید ارحم اطہر ندوی مولانا غیاث احمد رشادی ڈاکٹرتین الدین قادر مجاہد مولانا اکران بن محمد حمومی مولاناسید احمد سنی سعید قادری مولاناسید لام همانی علی قادری مولانا سید غلا خو شین احمد قادری شطاری مولانا مفتی عر عابدینی قالی ندویمولانا ڈاکٹر حافظ رضوان قریشی اور جناب شفیع قادری خطاب کیا