دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی!
سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ: 8099695186
بر صغیر کے مسلمانوں کی جب کبھی تاریخ لکھی جائے گی تو مؤرخ تقسیم ہند اور پاک وہند کے مسلمانوں کا تذکرہ ضرور کرے گا۔تقسیم ہند کی بنیاد کیوں اور کس مفروضے پر رکھی گئی یہ ایک بڑا تفصیل طلب موضوع ہے،اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، لکھا جا رہا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا، لیکن آزادی اور تقسیم ہند کے بعد آج اس ملک میں ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ یہاں کا مسلمان خود کو تنہا،بےبس اور حد درجہ کمزور محسوس کررہاہے،
بھارت کا مسلمان حیرانی کا شکار ہے،انتہائی صبر آزما حالات اور آزمائش کے اس دور میں کہیں نہ کہیں ان کی مایوسی بھی بڑھ رہی ہے،لیکن ظاہر ہے کہ یہ مایوسی،تنہائی اور اکیلا پن ہمارے مسائل کا حل بالکل نہیں ہے، ہمیں اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا اور اس پر غور کرنا ہوگا کہ آخر غلطیاں کہاں ہوئی ہیں اور پھر ان غلطیوں سے نکلنے کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ بند گلی سے آگے کا راستہ کون سا ہے؟ اور ہمیں کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
ملک میں آزادی کی تحریک عروج پر تھی کہ اسی درمیان ہندوستان میں داخلی حکومت کے مقصد پر بحث کرنے کے لئے 1928 میں کلکتہ شہر میں کانگریس پارٹی نے ایک اجتماع بلایا تھا،اس اجتماع میں مسلمانوں کے مفادات اور ان کے مطالبات کو یکسرنظر انداز کیا گیا،
جس کا اثر یہ ہوا کہ مسٹر محمد علی جناح کی جو ایک عرصے سے کانگرس پارٹی کے رکن چلے آرہے تھے آخر میں کانگرس کے متعلق ان کی رائے بدل گئی اور وہ اس سے یا ہر اس پارٹی سے جس پر ہندوؤں کا تسلط اور غلبہ ہو مسلمانوں کے ساتھ انصاف و ہمدردی کئے جانے سے مایوس ہو گئے اور یہیں سے انہوں نے مسلم لیگ کے مقاصد کے لئے اپنی خدمات اور صلاحیتیں وقف کرنا شروع کر دیں،
اس طرح ہندوستان کی سیاست میں ایک نیا عامل داخل ہو گیا اور وہ تھا اس طوفان کے خلاف مسلم رائے عامہ کا بیدار ہونا جو کانگرس میں مسلمانوں کے مفاد کے خلاف اٹھ چکا تھا اسی کے نتیجے میں 1928 کے آخر میں دہلی میں ایک عام مسلم کانفرنس بلانا طے کیا گیا تاکہ اس میں اسلامی زاویہ نظر سے طے کیا جائے کہ آزادی ہند کا انقلاب کس طرح مکمل ہو سکے گا،اس کانفرنس میں مسلم رائے عامہ کے مختلف گوشے اور نمونے سامنے آئے اور پھر کافی بحث و مباحثے کے بعد متفقہ طور پر کانفرنس ذیل کے بنیادی اصول مرتب کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
نمبر1 ہندوستان کی وسعت اور اس میں آباد مختلف قوموں کو دیکھتے ہوئے اور یہاں کے حالات کے پیش نظر ہندوستان کے لئے صرف وفاقی فیڈرل طرز حکومت ہی مناسب ہوگا،جس میں صوبوں کو جو وفاقی حکومت کے اجزائے ترکیبی ہوں گے،داخلی خود مختاری اور مرکزی حکومت کے دائرے میں آنے والے امور کے سوا بقیہ امور کے اختیارات حاصل ہوں گے۔
نمبر 2 مسلمانوں کو یہ حق ہے کہ مختلف ہندوستانی قانون ساز اداروں میں جداگانہ حق رائے دہی کے ذریعے اپنے نمائندے بھیجیں یہ نظام جو اس وقت رائج ہے اسے مسلمانوں کی رضا مندی کے بغیر منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔نمبر 3 جن صوبوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں یہ ضروری ہے کہ ان صوبوں کی وزارت اور مرکزی کابینہ میں انہیں ان کا متناسب حصہ دیا جائے۔
نمبر چار ان صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو اور ہندو اقلیت میں ہوں ہندوؤں کو اسی طرح نمائندگی ملے جس طرح مسلم اقلیت کے صوبوں میں مسلمانوں کو دی جائے گی،سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کا مناسب حصہ دلوانے کا قانونی بندوبست کیا جائے اور مسلمانوں کے تمدن، زبان اور اسلامی بنیادی اقدار کے لئے دستور میں تحفظات رکھے جائیں،اسی طرح مسلمانوں کے مذہب اور پرسنل لاء کے لیے بھی دستور میں تحفظات رکھے جائیں۔
یہ وہ تجاویز ہیں جنہیں کانگرس نے نظر انداز کردیا اور کانگریس کے اس طرز عمل نے مسلمانوں میں شک و شبہ اور خوف و ہراس کو جنم دیا،اس وقت مسلمان بحیثیت قوم اپنے قائدین سے پہلے یہ سوچنے لگے کہ جب ہندو اکثریت حصول آزادی میں ظفر مند ہو جائے گی اور ضمام حکومت و اقتدار سنبھال لے گی تو ہمارے حقوق کا کیا حشر ہوگا،ابھی جب کہ وہ اقتدار حکومت سے دور رہی ہے اور صرف ہوا ہی میں بحث کررہی ہے،اس کا انداز فکر اور طرز عمل اس وقت یہ ہے تو پھر اس وقت اس کا کیا حال ہوگا،جبکہ وہ حکمراں ہو جائے گی،
اس لیے کہ بالادستی کا غرور،اقتدار کا نشہ اور دوسرے کے حقوق پامال کرنا تو دنیوی حکومت کا خاصہ ہی ہے اس وقت مسلمانوں کے نزدیک اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان انگریزوں کی غلامی سے نکل کر جس میں انہیں مذہبی آزادی بھی انگریزی سیاست کی بنا پر حاصل تھی،ہندوؤں کی غلامی میں جا پڑے جو انگریزوں کے مقابلے میں ان کے تعلق سے زیادہ غیض و غضب میں مبتلا اور تعصب کے شکار تھے اور جو انہیں حملہ آور قرار دے کر انہیں فرزند آئین تسلیم کرنے کو آمادہ نہ تھے اور بزعم خیش ان مزعومہ مظالم کے لئے انتقام کے در پہ تھے جو مسلمانوں نے اپنے عہد حکومت کے دوران ان پر کئے تھے،
صرف مسلمان ہی ہندوؤں کے تسلط سے اندیشوں میں مبتلا نہیں ہوئے تھے،بلکہ بہت سے وہ لوگ بھی جو ہندو دھرم سے وابستہ تو تھے لیکن مفلس اور اچھوت طبقے سے تعلق رکھتے تھے وہ بھی اس برہمن راج کے احیاء سے خوفزدہ تھے جس کا مطلب ایک جابرانہ طبقاتی نظام کا ملک پر مسلط ہو جانا تھا،مسلمانوں کے ان اندیشوں کو وہ تکلیف دہ حادثات بھی پختہ و مضبوط کررہے تھے،جو ملک کے گوشے گوشے میں وقتا فوقتا رونما ہورہے تھے اور سینکڑوں بے گناہ مرد عورتیں اور بچے جن کی بھینٹ چڑھ رہے تھے۔
اس لئے اس کی توقع نہ تھی کہ یہ حادثات ختم ہو جائیں گے یا یہ کہ یہ حوادث وقتی ہیں یا یہ کہ جب تک اس کے اسباب اس طرح گہرے رہیں گے یہ ہلکے ہو سکیں گے یہاں ایک صورت ہو سکتی تھی اور وہ یہ کہ بے بسی اور فرمانبرداری کا اعلان کرے اور جو کچھ بھی اس کی یا اس کے مذہب کی رسوائی ہو اس پر راضی برضا رہے اور اس کے لیے تیار رہے کہ پوری کی پوری قوم اکثریت میں مدغم ہو جائے ظاہر ہے یہ ایک ایسی چیز ہے جو کسی حالت میں بھی ہونے والی نہیں تھی۔
یہ تھے وہ حالات جن کے سبب مسلمانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا اور کانگریس کے ممتاز و نمایاں مسلم زعماء نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کے جائز مطالبات کو کانگریس کے نظر انداز کرنے کے باوجود ان کا کانگریس سے وابستہ رہنا،اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنے کے مرادف ہوگا تو وہ کانگریس سے نکل گئے،مولانا محمد علی جوہر نے اس موقع پر یہ تک فرما دیا کہ ہم گاندھی جی کی مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ ان کی تحریک ایسی تحریک نہیں ہے،
جو ہندوستان کی مکمل آزادی چاہتی ہو،یہ تحریک صرف یہ چاہتی ہے کہ مسلمان محض ہندو مہا سبھا کے دست نگر اور محتاج بن کر رہ جائیں،ہندو مہا سبھا اپنی مسلم دشمنی میں انتہا پسند جماعت تھی جو مسلمانوں کو بیخ و بن سے ختم کرنے یا پھر ان کو ہندو مت میں ضم کر لینے کے عزائم کا ببانگ دہل اعلان کرتی تھی۔سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجیندر پرساد "گاندھی جی کے قدموں میں” نامی اپنی کتاب میں کانگریس پارٹی کے اجلاس منعقدہ کلکتہ 1928 اور سائمن کمیشن کا تذکرہ کرتے ہوئے جو ہندوستانیوں کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے امکانات کا جائزہ لے رہا تھا لکھتے ہیں کہ’پہلے ہی موقع پر کانگریس اس جماعتی اور گروہی پیچیدگی کے سبب انتشار میں مبتلا ہو گئی،
حالانکہ بہت سے ممبروں نے مسلمانوں کے ساتھ مصالحت کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا،مسلمانوں کے مطالبات ایسے نہ تھے کہ اگر ان کو مان لیا جاتا تو تحریک آزادی کو کوئی بڑا نقصان پہنچتا،اس وقت کسی کے ذہن میں نہ آیا کہ اگر یہ مطالبات نہ مانے جائیں تو یہی نہ ماننا تقسیم ملک کا سبب بن جائے گا، کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ اگر قوم نے اس وقت گاندھی جی کی نصیحت قبول کی ہوتی اور اس پر عمل کیا ہوتا تو آج ہندوستان کی تاریخ کا رخ دوسرا ہوتا،کانگریس کے اس اجلاس کے بعد مسلمانوں کی بڑی تعداد کانگریس پارٹی سے کنارہ کش ہو گئی اور انہوں نے اپنی ایک علیحدہ تنظیم قائم کر لی
،ان میں سے بہت تھوڑے لوگ جن میں مسٹر جناح بھی تھے،مسلمانوں اور کانگریس کے درمیان اصلاح حال کے لئے ایسی تندہی اور سرگرمی کے ساتھ منہمک ہو گئے کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے لیکن یہ صورتحال تھوڑے ہی عرصے تک رہی یہاں تک کہ ان کو ان کے وحدت کلمہ نے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا اور ان لوگوں نے ایک اسلامی تنظیم قائم کر لی جس میں ان کی تمام پارٹیاں ضم ہو گئیں”اس کے بعد سے مسلم لیگ مستحکم سے مستحکم تر ہوتی چلی گئی اور وہ تیسرے فریق یعنی انگریزوں سے اپنے مطالبات کے حصول کے لیے سرگرم ہو گئی،مسلمان برسوں بحث و مباحثہ اور بات چیت کرتے رہے اور اپنے ہندو بھائیوں کو اپنے جائز اور منصفانہ مطالبات کے بارے میں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے تاکہ وہ کسی ایسے متفقہ نقطے پر پہنچ سکیں جو سب کے لیے اطمینان بخش ہو اور جو ان کے اتحاد کو استعماری طاقت کے مقابلے کے لیے برقرار رکھ سکے،
لیکن جب مسلمان اپنے ہندو بھائیوں سے بالکل ہی مایوس ہو گئے تو ان کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ علیحدہ طور پر اپنے مطالبات سے انگریزوں کو آگاہ کردیں اور اس بات کا اعلان کریں کہ وہ کانگریس کے ساتھ ایسی کسی بات پر اتفاق نہیں کر سکتے جو ان کے حقوق کی ضامن نہ ہو،چنانچہ وہ جنگ آزادی میں مستقل طور پر تیسرے فریق بن گئے۔ 1922 کی ستیہ گرہ میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے سوامی شردھا نند نے حصہ لیا
انگریزی حکومت کے قوانین کے خلاف اظہار نفرت کے طور پر ستیہ گرہ میں شریک ہو کر جیل گئے وہ ہندوستان کے جذبات کے وکیل بن کر اور نمائندگی کی ہے مگر دنیا نے حیرت سے دیکھا کہ سوامی جیل میں کچھ ہی دنوں رہنے کے بعد جیل کے پھاٹک سے اپنے شوخ گیروے لباس میں خرامہ خرامہ چلے آرہے ہیں، سیاسی مجلسوں میں تعجب کا اظہار کیا گیا کہ اب تک کسی لیڈر نے تو کیا کسی معمولی رضاکار نے بھی حکومت سے معافی نہیں مانگی اور نہ وقت سے پہلے کبھی کوئی رہا کیا گیا،سوامی جی کی رہائی کس جادو کے ذریعے ہوئی؟
لیکن یہ رہائی علاؤالدین کے چراغ کے مؤکل نے کرائی تھی، کھل جا سم سم کا منتر سوامی جی کو معلوم ہو گیا،انہوں نے اس منتر کو پڑھا اور جیل کا پھاٹک از خود ان کے لئے کھل گیا ۔سوامی جی نے جیل سے باہر آتے ہی ہندوؤں کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا مشورہ دیا اور بتایا کہ ہندوستان ہندوؤں کا ہے،یہاں کچھ مسلمانوں نے آ کر ہمارے بھارت کے لوگوں کو زبردستی مسلمان بنایا،ہر ہندو کو چاہیے کہ تمام مسلمانوں کو شدی کر کے ان کو پھر سے ہندو دھرم میں واپس لائے،اس پوتر کام کو پورا کرنے کے لیے ہندوؤں کو اپنا سنگھٹھن بنا لینا چاہیے،
پھر انھوں نے اپنے چیلوں کو کچھ خاص خاص علاقوں میں بھیج کر شدھی کا پرچار شروع کردیا،ہندوؤں کو ورغلایا اور ہندو مسلم اتحاد کے محل میں وہ آگ بھڑکائی کے برسہا برس کا جمع کیا ہوا اثاثہ جل کر خاکستر ہو گیا، پورے ہندوستان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک نفرت و عداوت کی آگ دہک اٹھی، انگارے بھڑکنے لگے اور دونوں فرقوں کے لوگ مشتعل ہو کر آمادہ پیکار ہو گئے،جو مجاہدین آزادی براہ راست انگریزی سامراج سے نبرد آزما تھے وہ اپنی ہی فوج میں اپنے ہی آدمیوں کا گلا کاٹنے لگے اور حکومت دور کھڑی تماشہ دیکھتی رہی۔
پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کو دنیا نے دیکھا، تقسیم ملک کا شاخسانہ پیدا کرنے والی تجویز پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انداز گفتگو ہی بدل گیا، کہنے والوں نے جو کہا وہ تو ہواؤں میں اڑ گیا لیکن لکھنے والوں نے جو لکھا وہ آپ کے سامنے پیش ہے۔”ہندوستان کوئی بت نہیں کہ اس کو پوجا جائے کعبہ نہیں کہ اس کی سمت منہ کر کے مسلمان نماز پڑھتے ہوں،
صحیفہ آسمانی نہیں ہے کہ جسے بغیر وضو ہاتھ نہ لگایا جا سکے،وہ ایک ملک ہے اور اس لیے ہے کہ اس کے بسنے والے چین و آرام سے رہیں یہ چین یا آرام اگر وحدت سے حاصل ہوتا تو یقینا مسلمان اس وحدت کو شکستہ نہ کرتے، اگر یہ سکھ صرف تقسیم ہی سے حاصل ہو سکتا ہے تو ان کا مطالبہ کانگریس اور حکومت سے صرف ایک ہے اور وہ پاکستان ہے یعنی تقسیم ہند”(حیات محمدعلی جناح)پاکستان کا نعرہ لاہور کی سرزمین سے اٹھا اور چند دنوں میں پورے ہندوستان میں بلکہ ملک کے گوشے گوشے میں پھیل گیا اس کے خلاف جس نے آواز بلند کی اس کا گلا گھونٹ دیا گیا
،اس تحریک کے خطرناک عواقب و نتائج کی طرف جس ہاتھ نے اشارہ کیا اسے کاٹ دیا گیا،جس قلم نے اس کے خلاف لکھنے کی جسارت کی تو وہ قلم ہی نہیں انگلیوں کو بھی تراش لیا گیا،جن کی گرفت میں یہ قلم تھا مدبر علماء و مشائخ نے اس تجویز پر اسلامی ہند کی تباہی کا شکوہ کیا تو ان کی پگڑیوں کو سروں سے اتار کر جوتوں سے روند دیا گیا، نیشنلسٹ رہنماؤں کے گلے میں پرانے جوتوں کے ہار پہنائے گئے برملا گالیاں دی گئی،ان کی داڑھیوں میں شراب کی بوتلیں انڈیلی گئیں،ان کی عبائیں نوچ کر تار تار کردی گئی ان کا چلنا پھرنا دو بھر کر دیا گیا،
ان کو ہندوؤں کا زر خرید غلام کہا گیا،ان کو ضمیر فروش کا خطاب دیا گیا مسلم لیگ کا دفتر دارالافتاء بن گیا،اسلام اور مسلمان کی سند تقسیم کرنے لگا جو پاکستان کا حامی وہ مسلمان صاحب ایمان جو مخالف وہ سب کچھ تھا مگر انکی نظر میں مسلمان نہیں تھا،مسلم لیگ کے سارے چھوٹے چھوٹے بڑے لیڈراسلام کے ٹھیکے دار بن گئے اور ہندوستان کے محترم و معزز علماء و مشائخ کو جو پاکستان کو مسلمانوں کے لئے خطرناک کہتے اور سمجھتے تھے ان کو دین سے خارج کر دیا گیا
،شیخ الہند کو شیخ الہنود شیخ الاسلام کو شیخ الاصنام کی گالی دی گئی اور ان کے بڑے سے بڑے لیڈر کو شو بوائے کہا گیا اور وہ ساری بدتمیزیاں اور ذلیل حرکتیں کی اور کرائی گئی جو ایک اخلاق باختہ شخص اپنے ذاتی دشمن کے ساتھ کر سکتا ہے،اس طرح ہندوستان کا مسلمان دو حصوں میں بٹ گیا،ایک بڑا حصہ پاکستان کا حامی، لیگ کے سبزہلالی پرچم کے نیچے اور اور دوسرا پاکستان کا مخالف جو اہل تجویز پاکستان کو اسلامی ہند کے مسلمانوں کی اجتماعی خودکشی سے تعبیر کرتا رہا۔جاری ہے
(مضمون نگار معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
