Superim Court

کیا مسلمانوں کو ہندو مذہبی ٹرسٹ کا حصہ بننے دیا جائے گا؟ سپریم کورٹ کا مرکز سے سوال

تازہ خبر قومی
کیا مسلمانوں کو ہندو مذہبی ٹرسٹ کا حصہ بننے دیا جائے گا؟ سپریم کورٹ کا مرکز سے سوال
وقف ترمیمی ایکٹ  کے خلاف 73 درخواستوں کی سماعت، عدالت نے نفاذ پر روک لگانے سے انکار کیا
نئی دہلی، 17 اپریل
 (زین نیوز ڈیسک)
سپریم کورٹ آف انڈیا نے بدھ کے روز وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی 73 درخواستوں پر سماعت کی۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ، جس میں جسٹس پی وی سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن شامل تھے، نے اس اہم مقدمے کی سماعت کی۔
مرکزی حکومت کی نمائندگی سالیسٹر جنرل تشار مہتا کر رہے ہیں، جبکہ درخواست گزاروں کی طرف سے سینئر وکلا کپل سبل، راجیو دھون، ابھیشیک منو سنگھوی اور سی یو سنگھ دلائل دے رہے ہیں۔چیف جسٹس نے سماعت کے آغاز پر واضح کیا کہ عدالت کے سامنے دو بنیادی نکات ہیں: اول، کیا سپریم کورٹ کو یہ مقدمہ سننا چاہیے یا اسے متعلقہ ہائی کورٹس کو بھیج دیا جائے؟ دوم، وکلا کس کس نکات پر بحث کرنا چاہتے ہیں؟
اس پر درخواست گزاروں نے قانون کی خامیوں کی نشاندہی کی اور کہا کہ یہ ایکٹ مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔سینئر وکیل کپل سبل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے مذہبی عقائد میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق، ترمیم کے بعد وقف کونسل اور بورڈ میں غیر مسلموں کی شمولیت ممکن بنا دی گئی ہے،
آئین کے تحت حاصل مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ریاست کیسے طے کرے گی کہ کوئی فرد مسلمان ہے یا نہیں؟بینچ نے حکومت سے وقف املاک کی قانونی حیثیت اور صدیوں پرانی وقف جائیدادوں کی رجسٹریشن کے بارے میں سخت سوالات کیے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ اگر ایسی جائیدادیں، جن کے پاس آج رجسٹرڈ سیل ڈیڈ نہیں ہے، کو مسترد کیا گیا تو لمبے عرصے تک تنازعات جاری رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بعض املاک کو ’وقف از صارف‘ کے تحت تسلیم کیا گیا ہے، اور اگر اس بنیاد کو منسوخ کیا گیا تو مسائل پیدا ہوں گے۔عدالت نے مرکز سے پوچھا کہ کیا وہ اس بات پر راضی ہے کہ جس طرح وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کیا جا رہا ہے، اسی طرح مسلمانوں کو ہندو انڈومنٹ بورڈز میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے گی؟ بنچ نے کہا کہ کھل کر وضاحت کی جائے کہ حکومت کا اس بارے میں کیا مؤقف ہے۔تشار مہتا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بعض مسلمان خود بھی وقف ایکٹ سے مطمئن نہیں تھے اور حکومت نے تمام فریقین سے مشاورت کے بعد یہ ترمیم پیش کی ہے۔
 ان کا کہنا تھا کہ وقف کا تعلق صرف خیرات سے ہے، اور جیسا کہ حکومت ہندو مذہبی اداروں کو چلاتی ہے، اسی طرح وقف کے نظم و نسق میں تبدیلی بھی قانونی ہے۔سپریم کورٹ نے حکومت سے ان تمام نکات پر وضاحت طلب کی ہے، تاہم عدالت نے درخواست گزاروں کی اس درخواست کو مسترد کر دیا کہ ایکٹ کے نفاذ پر عبوری طور پر روک لگائی جائے۔ عدالت نے سماعت جمعرات دوپہر 2 بجے تک ملتوی کر دی ہے۔